مہر خبررساں ایجنسی نے ایکس پریس کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ہندوستان نے ریاست آسام میں موجود 34 فیصد مسلمانوں کو بنگالی قرار دے کر انہیں ملک بدر کرنے کا منصوبہ تیار کرلیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ریاست آسام میں 100 سال قبل سے مقیم بنگالی مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کا منصوبہ تیار کرلیا گیا ہے، ہندوستان کی شدت پسند ہندو تنظیم آر ایس ایس اور حکمران جماعت بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں کا مؤقف ہے کہ آسام میں لاکھوں غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن آ کر بس گئے تھے جنہیں نکالنے کے لئے سب سے پہلے انہیں بھارتی ووٹرز لسٹوں سے نکالنا ضروری ہے۔ بی جے پی کے ریاستی صدر رنجیب داس نے بھی اس حوالے سے تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان تمام لوگوں کے نام ووٹرلسٹ سے باہر کرکے ووٹ کا حق ختم کردیا جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق آسام میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 34 فیصد ہے، ان میں اکثریت بنگالی نسل کے مسلمانوں کی ہے جو گزشتہ 100 برس کے دوران یہاں آکر آباد ہوئے، یہ لوگ بیشتر غریب، ان پڑھ اور زرعی مزدور ہیں، بھارتی الیکشن کمیشن نے گزشتہ کئی سال سے ووٹر لسٹ میں بنگالی مسلمانوں کو شہریت کے دستاویزات یا ثبوت پیش نہ کرنے کی پاداش میں ‘ڈی ووٹر’ مشکوک شہری لکھنا شروع کررکھا ہے، جسٹس فورم کے رکن عبدالباطن کھنڈ کار کا کہنا ہے کہ ‘ڈی ووٹرز اور ڈکلیئرڈ فارینرز کی تعداد تقریباً 5 لاکھ اور ان کے بچوں کی تعداد 15 لاکھ ہوگی اور یہ سب نئی ووٹرز فہرست میں شامل نہیں ہوں گے اور اندیشہ ہے کہ کم از کم 20 لاکھ بنگالی مسلمان شہریت اور قومیت سے محروم ہو جائيں گے۔
بھارتی سپریم کورٹ کی نگرانی میں ریاست کی شہریت حاصل کرنے والے شہریوں کی دوسری اور آخری فہرست تیار کی جارہی ہے اور رواں برس جون میں نیشنل رجسٹر فار سٹیزنز حتمی فہرست جاری کرے گی، آسام کے لاکھوں مسلمانوں کی شہریت اور قومیت کا مستقبل اسی فہرست پر منحصر ہے۔ ریاست کے سابق وزیر اعلٰی اور کانگریس کے رہنما ترون گوگوئی نے شہریت کا قومی رجسٹر بنانے کی ابتدا کی تھی اور ان کے دورِ اقتدار میں ہی پہلی فہرست جاری کی گئی تھی۔
ادھر بھارتی حکومت کی جانب سے ممکنہ طور پر ملک بدر کئے جانے والے مسلمانوں کو گرفتار کرکے حراستی کیمپوں میں رکھنے کے لئے بعض مقامات پر زمینیں بھی حاصل کررکھی ہیں جب کہ ریاست میں جورہٹ، ڈبروگڑھ، گوالپاڑہ، سلچر، تیج پور، اور کوکراجھار کی جیلوں میں پہلے ہی حراستی کیمپ بن چکے ہیں۔
آپ کا تبصرہ